دیا گیا تھا محبت میں ایک خواب عجیب
ہے بے کلی سی عجب میری روح میں رقصاں
لبوں سے میں نے لگائی ہے اک شراب عجیب
غریب باپ کی آنکھوں میں نیند کیا آئے
اسے ستانے لگے بیٹیوں کے خواب عجیب
میں اپنی ذات کی ہر آن خود محاسب ہوں
دلیل مانگتا ہے مجھ سے احتساب عجیب
ہوئی ہے حالتِ دل شعر میں بیاں جب سے
اٹھی ہیں مجھ پہ نگاہیں یہاں ربابؔ عجیب
فوزیہ ربابؔ