تمھاری یاد کے جو وسوسے ہیں سر میں رہتے ہیں
گھروں کی ایٖنٹ جڑتی ہے میاں الفت کے گارے سے
محبت کے عناصر بھی فصیل و در میں رہتے ہیں
بہت سے تجربے میں نے کیے ہیں شہر میں آکر
اداکاری، ریاکاری سبھی اک گھر میں رہتے ہیں
ہم اپنے دل کے قاتل کو کوئی زحمت نہیں دیتے
ہمارے خوں کے سارے ذائقے نشتر میں رہتے ہیں
ہوائیں بھی انھیں کو حوصلہ دینے کو آتی ہیں
اڑانوں کے ہنر جن کے بھی بال و پر میں رہتے ہیں
ربابؔ ایسا مجھے لگتا ہے جب پہلو بدلتی ہوں
کسی کے ہجر کے کانٹے مرے بستر میں رہتے ہیں
فوزیہ ربابؔ