کہ چھانتے تری راہوں کی گرد رہنا ہے
وفائیں ڈھونڈتے پھرتے ہو گرم ہاتھوں میں
تمھارا ہاتھ سدا پھر بھی سرد رہنا ہے
اسے فریب کہوں یا عنایتِ الفت
ہمارے حصّے میں بس ایک فرد رہنا ہے
مجھے وہ چین کے لمحے نوازنے والا
اسی کو بن کے مرے سر کا درد رہنا ہے
عجیب حوصلہ رب نے دیا ہے ماؤں کو
کہ بن کے آل کی خاطر جو مرد رہنا ہے
ربابؔ اِس سے بڑی اور مہربانی کیا
کہ ِارد گرد مرے اُس کا درد رہنا ہے
فوزیہ ربابؔ