مرے حبیب مرے چارہ گر کہاں ہو تم
نہ راستوں کی خبر اور نہ منزلوں کا پتہ
کہاں میں جاؤں مرے راہ بر کہاں ہو تم
اے باغ دل کے ملنسار باغبان ضعیف
درخت دینے لگے ہیں ثمر کہاں ہو تم
سنائی دیتی ہے ہر پل مجھے تری آواز
دکھائی کیوں نہیں دیتے مگر کہاں ہو تم
غضب کی دھوپ ہے اور سائبان کوئی نہیں
میں جل رہا ہوں مرے بام و در کہاں ہو تم
کچھ ان کی خیر خبر ساتھ لے کے آئے ہو
چلے بھی آؤ مرے نامہ بر کہاں ہو تم
یاسین ضمیر