زباں پر ہم صفیروں کی مرا پیغام کیا ہوگا
کہے دیتا ہے خود آغاز ہی انجام کیا ہوگا
تری آتش بیانی سے چراغ شام کیا ہوگا
نہ گھبرا باغباں بلبل کی رسمی نوحہ خوانی سے
بھلا ان چند تنکوں کا نشیمن نام کیا ہوگا
فدائے کسمپرسی ہوں نثار تلخ کامی ہوں
مرے عزم طلب کا مدعا آرام کیا ہوگا
فریب اندر فریب آتش در آتش اے معاذ اللہ
خدا ناکردہ فصل گل ترا انجام کیا ہوگا
ارادت کا بھرم کھل جائے گا بیعت نہ لے ساقی
گرفتار سلاسل ہوں طواف جام کیا ہوگا
یہ کیوں سمجھاؤں میں یعقوب نوک نشتر غم کو
جو باقی رہ گیا ہے خون ہفت اندام کیا ہوگا
یعقوب عثمانی