سمجھنے پر بھی دل کا مدعا سمجھا نہیں سکتا
بھلا ایسی تہی داماں تمناؤں سے کیا حاصل
بہلنے پر دل آمادہ ہے اور بہلا نہیں سکتا
خدا محفوظ رکھے خوف آسیب اسیری سے
میں گلشن میں بھی آزادی کا نغمہ گا نہیں سکتا
رگ گل سے بھی نازک تر ہیں تنکے آشیانے کے
انہیں گلچیں ہر انداز نوازش بھا نہیں سکتا
بھرا جائے گا کب تک خون ماضی نبض فردا میں
اب اس پہلو پہ نظم قلب گیتی آ نہیں سکتا
کسے فتنہ سمجھ کر اپنی محفل سے اٹھاتا ہے
ضمیر امن اس دھوکے میں ناداں آ نہیں سکتا
سحاب فکر بھی یعقوب پابند فضا نکلا
چمن کی خاک پر رنگ سخن برسا نہیں سکتا
یعقوب عثمانی