نہ زندگی کی خوشی ہی اچھی نہ بے ثباتی کا غم ہی اچھا
تلاش کی سعئ رائیگاں پر نظر تو آتے ہیں غرق حیرت
سخن طرازیٔ رہنما سے سکوت نقش قدم ہی اچھا
ضیائے نور یقیں ہے رہبر حیات کی تیرہ وادیوں میں
بجھا کے دیکھیں بجھانے والے چراغ طاق حرم ہی اچھا
طلب کی عظمت طلب کی زحمت طلب کا حاصل طلب کی لذت
نہ خوف سود و زیاں ہی اچھا نہ خطرۂ بیش و کم ہی اچھا
مآل کیا ہوگا باغبانو سکوں فراموش ارتقا کا
نظر بھی آنے لگی چمن میں بہار باغ ارم ہی اچھا
مجھے اسی پر ہے ناز ہمدم شکستہ ساغر یہ ہے تو اپنا
کسے سناتا ہے ذکر ماضی بلا سے تھا جام جم ہی اچھا
حواس یعقوب نکتہ چیں کیوں نظر ہی تو ہے یہ اپنی اپنی
نگاہ ذوق بلند میں ہے سر اطاعت کا خم ہی اچھا
یعقوب عثمانی