حقیقت کو چھپاتا جا رہا ہوں داستانوں میں
سبھی تو آج برگشتہ ہیں عظمت سوز پستی سے
مچا رکھی ہے اک ہلچل زمیں نے آسمانوں میں
سمجھتا ہوں میں بے مفہوم سی آواز شکوے کو
مصیبت خود مدد کرتی ہے آ کر امتحانوں میں
مرا آئینۂ احساس حیراں ہو نہیں سکتا
یقیں کا نور پیدا کر ہی لیتا ہے گمانوں میں
بنا رکھا ہے بد تر از قفس خوف اسیری نے
سوا تنکوں کے اب کیا رہ گیا ہے آشیانوں میں
نیا اک معبد امید بھی تعمیر کرنا ہے
عنادل معتکف کب تک رہیں گی گلستانوں میں
مری نیرنگیاں چھانے لگی ہیں رنگ محفل پر
بہت کچھ فرق یعقوب آ چلا ہے داستانوں میں
یعقوب عثمانی