وہ جو کسی کا روپ دھار کر آیا تھا

وہ جو کسی کا روپ دھار کر آیا تھا
میرے اندر بسنے والا سایا تھا

وہ دکھ بھی کیوں ہم کو تنہا چھوڑ گئے
کیا کیا چھوڑ کے ہم نے جنہیں اپنایا تھا

خود تم نے دروازے بند رکھے ورنہ
میں اک تازہ ہوا کا جھونکا لایا تھا

میری اک آواز سے ساری ٹوٹ گئی
وہ دیواریں جن پر تو اترایا تھا

ویراں دل میں غم کے پریت بھٹکتے تھے
میری چپ پر کسی صدا کا سایا تھا

اس میں ایک جنم بھر کے دکھ سمٹے تھے
وہ آنسو جو پلکوں پر لہرایا تھا

آزاد گلاٹی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *