سبھی یہ سوچ رہے ہیں کہ مرنے والا ہوں
کسی کی یاد کا مہتاب ڈوبنے کو ہے
میں پھر سے شب کی تہوں میں اترنے والا ہوں
سمیٹ لو مجھے اپنی صدا کے حلقوں میں
میں خامشی کی ہوا سے بکھرنے والا ہوں
مجھے ڈبونے کا منظر حسین تھا لیکن
حسین تر ہے یہ منظر ابھرنے والا ہوں
حیات فرض تھی یا قرض کٹنے والی ہے
میں جسم و جاں کی حدوں سے گزرنے والا ہوں
میں ساتھ لے کے چلوں گا تمہیں اے ہم سفرو
میں تم سے آگے ہوں لیکن ٹھہرنے والا ہوں
صدائے دشت سہی میری زندگی آزاد
خلائے دشت کو اپنے سے بھرنے والا ہوں
آزاد گلاٹی