بجھا گئی ہے انہیں موت اب ہوا بن کر
وہ خامشی جو تری بزم نے ہمیں بخشی
خلائے ذہن میں گونجی ہے اک صدا بن کر
جو تو نے مجھ کو غم لا زوال بخشا تھا
وہ زندگی میں رہا میرا رہنما بن کر
وہ جن کے لمس سے تو کھل کے پھول بنتا تھا
وہ اب بھٹکتے ہیں در پر ترے صبا بن کر
جب ان کی بزم سے لوٹے تو خود کو پہچانا
وہاں سے آئے ہم آزادؔ کیا سے کیا بن کر
آزاد گلاٹی