دل کو تھا جس بات کا دھڑکا وہ نوبت آ گئی
ٹوٹ کر برسی گھٹا تجھ سے جُدا ہوتے ہوئے
آسماں رونے لگا بادل کو غیرت آ گئی
اتفاقاً جب کوئی تیرے حوالے سے ملا
سامنے نظروں کے یکدم تیری صورت آ گئی
گھر کے بام و در سمٹ کر مثلِ زنداں ہو گئے
شام کیا آئی کہ جیسے مجھ میں وحشت آ گئی
اس لیے بھیجا نہیں اتنے دنوں سے خط مجھے
راس شائد اس کو غیروں کی رفاقت آ گئی
اعتبار ساجد