سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی
جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی
دیے بجھا کے سرِشام سو گیا تھا وہ
بِتائی سو کے شبِ ماہتاب میں نے بھی
یہی نہیں کہ مجھے اس نے درد ہجر دیا
جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی
کسی نے خون تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں
لکھی ہے خون جگر سے کتاب میں نے بھی
خزاں کا وار بہت کارگر تھا دل پہ مگر
بہت بچا کے رکھا، یہ گلاب میں نے بھی
اعتبار ساجد