کسی کے سر کو شانے سے ہٹا دینا ہی پڑتا ہے
کسی دیر آشنا کو جھوٹے سچے کچھ حوالوں سے
تعارف کے لیے سب سے ملا دینا ہی پڑتا ہے
جو سانسوں میں مہکتے ہیں جو آنکھوں میں دمکتے ہیں
اچانک ایک دن ان کو بھلا دینا ہی پڑتا ہے
دیے جوہم جلاتے ہیں نہایت شوق سے ہر شب
انہیں خود اپنی پھونکوں سے بجھا دینا ہی پڑتا ہے
کوئی جب پوچھتا ہے ہم سے کیسا حال ہے ساجد
ہمیں محتاط ہو کر مسکرا دینا ہی پڑتا ہے
چمک اٹھتے ہیں ساجد جب ستارے اس کی پلکوں پر
اسے دل سے لگا کر حوصلہ دینا ہی پڑتا ہے
اعتبار ساجد