حیات خوب نہیں ہے تو مختصر کر دے
حصار ذات کے زندان بے اماں کی خیر
غبار راہ کی صورت ہی منتشر کر دے
دروغ مصلحت آمیز کے خرابے میں
انا پسند مزاجوں کو در بدر کر دے
گئے دنوں کو تلاشیں کہ اگلی رت میں کھلیں
تو موسموں کو ہواؤں سے با خبر کر دے
لباس فقر میں اتنی تونگری تو رہے
دل غریب کو وسعت میں بحر و بر کر دے
میں ایک عمر سے جاگا کیا ہوں جس کے لیے
دعائے نیم شبی میں ذرا اثر کر دے
وقار شخص کہ شاعر نہ اس کی فکر نہ فن
تمام عیب ہیں چاہے تو سب ہنر کر دے
وکیل اختر