کسی بد بخت کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
مروت کی ادا پر بند آنکھیں کر کے لٹ جانا
یہ نادانی سہی لیکن یہ نادانی نہیں جاتی
وہاں دل لے چلا ہے پھر وہی اک بات کہنے کو
کہی جاتی ہے جو اکثر مگر مانی نہیں جاتی
خداوندا پھر آخر کیا تمنا ہے مرے دل کی
وہ پہلو میں بھی ہیں لیکن پریشانی نہیں جاتی
کیا تھا میں نے شکوہ آپ نے آنکھیں جھکا لی تھیں
ہوئی مدت مگر اب تک پشیمانی نہیں جاتی
وہی ہے اپنی رندی اور وہی واعظ کی فہمائش
بری عادت کوئی بھی ہو بہ آسانی نہیں جاتی
ہری چند اختر