عیش کی دھن ہے مجھے موت کا دھڑکا ہے مجھے
موت کہتے ہیں جسے ضبط کی تکمیل نہ ہو
کہ تنفس پہ بھی فریاد کا دھوکا ہے مجھے
حسن وہ چاہیے جو عشق کا آئینہ بنے
یعنی اپنے لئے اپنی ہی تمنا ہے مجھے
تم نہ گھبراؤ مجھے تم سے کوئی کام نہیں
اپنی خواہش ہے مجھے اپنی تمنا ہے مجھے
یہ تو معلوم نہیں ان کا ارادہ کیا ہے
ہاں نگاہ غلط انداز سے دیکھا ہے مجھے
ہجر کی شب ادھر اللہ ادھر وہ بت ہے
دیکھنا یہ ہے کہ اب کون بلاتا ہے مجھے
ایک بت ایک ہی بت کا ہوں پجاری اختر
اپنے اس شرک پہ توحید کا دعویٰ ہے مجھے
ہری چند اختر