یہ صحرائے طلب یا بیشۂ آشفتہ حالی ہے

یہ صحرائے طلب یا بیشۂ آشفتہ حالی ہے
کوئی دریوزہ گر اپنا کوئی تیرا سوالی ہے

حوادث سے نبرد آرائیوں کا کس کو یارا تھا
جنوں اپنا سلامت جس نے ہر افتاد ٹالی ہے

ترے اغماض کی خو سیکھ لی اہل مروت نے
کہ محفل درد کی اب صاحب محفل سے خالی ہے

حضوری ہو کہ مہجوری محبت کم نہیں اس سے
تب اپنا بخت عالی تھا اب اپنا ظرف عالی ہے

نمو کا جوش کچھ نظارہ فرما ہو تو ہو ورنہ
بہار اب کے برس خود پائمال‌ خشک سالی ہے

کسی کے لطف کم کو دیر لگتی ہے سوا ہوتے
چٹکنے تک تو ہر گل کی جبلت انفعالی ہے

شرف اتنا کہ غالب کی زمیں میں ہے غزل گوہر
وہ مضموں آفرینی ہے نہ وہ نازک خیالی ہے

گوہر ہوشیار پوری

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *