ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے اور مے خانہ بھی
بے خودیٔ دل کا کیا کہنا سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں
ہستی سے مانوس بھی ہوں ہستی سے بیگانہ بھی
حسن نے تیرے دنیا میں کیسی آگ لگا دی ہے
برق بھی شعلہ برپا ہے رقص میں ہے پروانہ بھی
وسعت وحشت تنگ ہوئی بگڑا گھر دیوانوں کا
نجد کے اک سودائی نے لوٹ لیا ویرانہ بھی
آج محبت رسوا ہے ہاتھوں سے ہوشیاروں کے
عشق کی پہلی دنیا میں تھا کوئی دیوانہ بھی
دل کی دنیا ہلتی ہے روکو اپنی نظروں کو
کافر لوٹے لیتی ہیں آج تجلی خانہ بھی
گردش مست نگاہوں کی آخر وجد انگیز ہوئی
چکر میں ساغر بھی ہے دور میں ہے پیمانہ بھی
ساغر نظامی