جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدہ اشکبار! چپ ہو جا
جا چکا ہے کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار، چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غمگسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ لگ جائے
حسرتِ سوگوار! چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغر
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
ساغر صدیقی