یوں کسی درد سے لڑتے ہوئے گزریں راتیں
اس طرح دل میں کوئی ٹیس اٹھی
جیسے حسرت کوئی بازار میں رہ جاتی ہے
جیسے بچہ کوئی سوتے ہوئے ڈر جاتا ہے
یوں اداسی نے مجھے اپنایا
جیسے بیوہ کسی آزار سے لگ جاتی ہے
اور ہر بات پہ بیٹھےہوئے رو پڑتی ہے
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بچے کسی تختی پہ کوئی سبق لکھیں
اور پھر یاد کریں پہروں تک
پھر ذرا سا جو اسے بھولیں تو
ڈانٹ پڑجاتی ہے رو دیتے ہیں
پھر کبھی بھول نہیں پاتے ہیں
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بیمار طبیعت کو شفا یاد آئے
ہم نے یادوں سے وضو کر کر کے
اک ترے نام کی تسبیح بھی کی
یوں ترا ہجر منایا ہم نے
جیسے بارش کی جھڑی لگ جائے
جس کے تھم جانے کا امکان نہ ہو
یوں ترے ہجر میں ہم روئے ہیں!
زین شکیل