یہ مری زبان کو کیل کر

یہ مری زبان کو کیل کر کہاں لے گئے
مرے چارہ گر مجھے گفتگو پہ عبور تھا
مجھے وسعتوں سے نکال کر کہین دفن کر
یہ جو تیری حد کا خمار ہے مجھے راس ہے
کوئی خواب مردہ پڑا ہوا ہے وجود میں
مرے دل میں کتنی ہی حسرتوں کا ہجوم ہے
مرا عجلتوں میں گزرگیا تھا فراق بھی
ترے خواب تکنے کا وقت بھی نہیں مل سکا
یہاں جتنی راتیں بھی بچ گئیں ہیں حیات میں
چلو مل کے غم کی ریاضتوں میں گزار دیں
تری ذات ہی مِری شاعری کا ہے آئینہ
مِرے حرف تیری ہی یاد سے ہیں دُھلے ہوئے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *