کون کہتا ہے تری مجھ سے جدائی ہوئی ہے
میں تو آنکھوں کو بھی پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں
تو نے اک بات کہیں مجھ سے چھپائی ہوئی ہے
لوگ آتے ہیں مرے گھر کی زیارت کے لیے
میں نے تصویر تری گھر میں لگائی ہوئی ہے
ہم نے بس ایک ترے غم کو منانے کے لیے
شہر سے دور کہیں کٹیا بسائی ہوئی ہے
اب جو ہر بات ہواؤں نے بتائی ہے تجھے
میں نے ہر بات ہواؤں کو سنائی ہوئی ہے
میں اکیلا تو نہیں تیرا تصور ہے یہاں
اور کمرے میں اداسی بھی بلائی ہوئی ہے
ہم کہاں یوں سرِ بازار تھے بِکنے والے
تیری حسرت ہمیں بازار میں لائی ہوئی ہے
یہ بھی کیا چھین کے لے جائے گی دنیا مجھ سے؟
میں نے اک یاد جو مشکل سے کمائی ہوئی ہے
زین شکیل