میری تو ذات ہے سدا اُس کی
چل پڑی ہے مرے مخالف ہی،
پھر حمایت میں ہے ہوا، اُس کی
کاش کرتے کوئی بھلا اس کا
کاش لیتے کوئی دعا اُس کی
کتنی بے فیض تھیں مری آنکھیں
کتنی کم ظرف تھی ادا اُس کی
چند لمحوں میں بھول جاتا ہوں
یاد بھی کم ہے دیر پا اُس کی
اب بھی آنکھوں سے بہہ رہا ہے وہ
اب بھی کانوں میں ہے صدا اُس کی
وہ یہیں پر فنا نہیں ہوتا
میرا مرنا ہے انتہا اُس کی
زین! کب تک رہے گا تُو خاموش
چل کوئی بات ہی سنا اُس کی
زین شکیل