وہ بولی دیکھ کیسے اڑ

وہ بولی دیکھ کیسے اڑ رہے ہیں بے کلی اوڑھے
میں بولا ان پرندوں کو بھی شاید شام کا دکھ ہے
وہ بولی کیوں زبانیں گنگ ہیں پاگل ہواؤں کی
میں بولا ان کو پیغامات کے الزام کا دکھ ہے
وہ بولی ابتدا سے ہی بہت بوجھل طبیعت تھی
میں بولا اس لیے ہی تو مجھے انجام کا دکھ ہے
وہ بولی شادمانی اب مرے گھر ہی نہیں آتی
میں بولا اس کو بھی ہر راستے ہر گام کا دکھ ہے
وہ بولی اس قدر دکھ تھے، کسے، کیا نام دیتی میں
میں بولا سچ بتاؤں تو تمہیں بس نام کا دکھ ہے
وہ بولی زین تم ہوتے ہوئے بھی گمشدہ کیوں ہو
میں بولا بس مجھے اب ہر ادھورے کام کا دکھ ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *