وہ آئینوں سے جو بے خبر

وہ آئینوں سے جو بے خبر ہے، حسین تر ہے
وہ جس پہ ٹھہری ہوئی نظر ہے، حسین تر ہے
جو دھوپ اوڑھے ہوئے بھی سایہ تو دے رہی ہے
وہ شاخ کتنی ہی بے ثمر ہے، حسین تر ہے
جو سر پہ دستِ کرم ہے ان کا تو رنج کیسا
پھر عمر جتنی بھی مختصر ہے، حسین تر ہے
وہ شہر ان کا کمال سے بھی کمال ہے پر
وہ ان کے در کی جو رہگزر ہے، حسین تر ہے
فشارِ جاں بھی قرارِ جاں ہی لگے ہے اب تو
جو مجھ پہ طاری ترا اثر ہے، حسین تر ہے
جو حق پہ بولے، زبان کھولے، سکوت توڑے
مرے لیے تو وہ معتبر ہے، حسین تر ہے
یہاں وہاں ہے، اِدھر اُدھر ہے، کدھر کدھر ہے
ترا تصّور جدھر جدھر ہے، حسین تر ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *