وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
مانتا ہی نہیں روایت کو
شدتوں کو زوال آتا ہے
لوگ بھی ایک سے نہیں رہتے
بات گر اک جگہ سے نکلے تو
وہ بھی چہرے بدلتی رہتی ہے
زلف کالی گھنی، سنہری ہو
اس میں چاندی اُتر ہی آتی ہے
لوگ جو پیار کرنے والے ہوں
ان کا شیرینیوں بھرا لہجہ
رفتہ رفتہ بدلتا جاتا ہے
رنگ رُخ کا پگھلتا جاتا ہے
اور پھر تم بھی کون ایسے ہو
جو امر ہو، سدا رہو گے تم
کب تلک مجھ کو خط لکھو گے تم
ساتھ کب تک مرے ہنسو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
اس کو ڈھلنا ہے ڈھل ہی جائے گا
رنگ کیا کیا ہمیں دکھائے گا
تم پریشان بس نہیں ہونا
میں اگر سنگ چل نہیں پاؤں
میں اگر ساتھ رہ نہیں پاؤں
سارے الزام میرے سر لکھنا
میری مجبوریاں بھلا دینا
تم مجھے صرف بے وفا لکھنا
تم مِری چاہتوں کو چاہو تو
تم مِرے رابطوں کو چاہو تو
بے وفائی کی انتہا لکھنا
اور مجھ کو بہت بُرا لکھنا
مجھ کو لیکن یقین ہے اک دن
جب کبھی تم اُداس بیٹھو گے
جب مِرے دکھ تمہیں ستائیں گے
مدتوں بعد جب مری باتیں
تم کسی اور کو سناؤ گے
اور کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے
آخری بات یہ کہو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
ہونٹ دھیرے سے کپکپائیں گے
پھر پُر اسرار سی ہنسی آ کر
ایسے ہونٹوں پہ بیٹھ جائے گی
اک نمی وقت کی بَلی چڑھ کے
یونہی آنکھوں میں پھیل جائے گی
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں!
زین شکیل