آج چھٹنے کو پھر ابرِ ظلمات ہے، واہ کیا بات ہے!
حالتِ وجد میں پھر مری ذات ہے، واہ کیا بات ہے!
ان کے ہونٹوں پہ بس اک مری بات ہے، واہ کیا بات ہے!
آج پھر خواب میں ان کے ملنے کا مجھ کو اشارہ ملا
برگذیدہ بہت آج کی رات ہے، واہ کیا بات ہے!
گر مزاجِ محبت میں تلخی کا عنصر ذرا بھی نہ ہو
اہلِ دل کے لیے یہ بھی سوغات ہے، واہ کیا بات ہے!
بال شانوں پہ بکھرے ہوئے،آنکھ کجلائی، اُف کیا بنے!
حُسن بیٹھا لگا کر نئی گھات ہے، واہ کیا بات ہے!
دیر تک میری نظمیں پڑھیں اس نے پھر جھوم کر یہ کہا
ہائے کیا بات ہے! یار کیا بات ہے! واہ کیا بات ہے!
زین شکیل