دل پہ چھایا بڑے کمال کا دُکھ
ایک تجھ کو محبتوں کا ملال
ایک مجھ کو اِسی ملال کا دُکھ
اک طرف تیرے جیتنے کی خوشی
ایک جانب ہے تیری چال کا دُکھ
دل میں اترے جواب کے نشتر
ہم نے پایا کسی سوال کا دُکھ
زخم تازہ ہے اس بلندی پر
اب تلک ہے کسی زوال کا دُکھ
میرے ماضی پہ رحم کر دیتے
یوں بکھرتا نہ میرے حال کا دُکھ
ایک دل، وہ بھی مضطرب قیدی
ہے مجھے ایسے یرغمال کا دُکھ
سانس کب پہلے اختیار میں تھی
جل پری کو ہے ایک جال کا دُکھ
تم تو ڈوبے تھے جھیل آنکھوں میں
کیا ملا تھا؟ مِرے خیال کا دُکھ!
کیوں اُسے شاعری سے نفرت ہے؟
زینؔ مجھ کو اِسی سوال کا دُکھ!
زین شکیل