آنکھ مچولی کھیل رہے ہو، حد ہے ناں!
نظر آؤ !
رگوں میں چین کے دوڑے ہوئے مدت ہوئی
تم چھپ گئے ہو
ضبط اتنا خوبصورت تو نہیں جتنا اسے سمجھا تھا میں نے
درد کی اولاد میرے سنگ بچپن سے پلی ہے
غم اور اس کے سب بہن بھائی ہی میرے ساتھ کھیلے، پرورش پائے…
ابھی تک کھیلتے ہیں !
میری آنکھوں پر محبت کی اذیت سے بُنے کپڑے کی پٹی باندھ کے
وہ سب ہی یک آواز ہو کر بولتے ہیں
“ڈھونڈ لو ہم کو”
میں اپنے ہاتھ اندھوں کی طرح پھیلائے سارے گھر میں پھرتا ہوں
میں ہر دروازے ہر کھڑکی، ہر اک صوفے پہ اپنے ہاتھ جب جب پھیرتا ہوں
غم اور اس کے سب بہن بھائی مخالف سمت سے ہنستے ہوئے محسوس ہوتے ہیں
میں پھر تھک ہار کے آنکھوں سے جب پٹی ہٹاتا ہوں
تو کمرے میں غموں کی مامتا
یعنی کہ گہری سوگواری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا
میں یونہی جامد و ساکت کھڑا،
کچھ ٹھہر کے آنکھوں سے بہتے اشک اپنے سرد ہاتھوں سے ہٹاتا،
اور اک بے ربط سی ٹوٹی ہوئی ہچکی نکلنے پر
یونہی گھٹنوں کے بل، بےکل، زمیں پر آن گرتا ہوں
تمہیں آواز دیتا ہوں کہ
“لو میں ہار بیٹھا”
اب نظر آؤ۔۔۔۔۔
تو اس لمحے سبھی درزوں سے غم اور اس کی سب بہنیں، سبھی بھائی،
کن اکھیوں سے، مجھے بس جھانکتے ہیں
اور پہلے وہ مری بے چارگی کا، بے بسی کا
اور مرے لاچار ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
پھر وہ میری ہار پہ جی بھر کے ہنس ہنس کر
بس اپنی ذات کو تسکین دیتے ہیں۔۔۔۔
مری حالت پہ تھوڑا رحم کھاؤ
“اب نظر آؤ”
زین شکیل