ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
کسی شاداب نگری کےکسی برباد خطے کے
بڑے ویران کونے میں
کسی بے چین لمحے میں، بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
جہاں پر ہجر کے موسم بھی اپنا رخ بدلتے ہوں
جہاں پر آرزوؤں کا کبھی نہ خون ہو پائے
جہاں تم سے بچھڑنے کا کوئی بھی راستہ نہ ہو
جہاں پر خواب تعبیریں بھی اپنے ساتھ لاتے ہوں
جہاں پر آنکھ کھلتی ہو تو میرے سامنے تم ہو
جہاں پر نیند بھی مجھ کو تمہارے ساتھ آتی ہو
تمہارے ساتھ ہونے سے خزاں بھی کھلکھلا اُٹھے
فضا بھی مسکرا اٹھے،
جہاں نہ بھوک اور افلاس سے بچے بلکتے ہوں
جہاں سر کی ردا لاچار کا ماتم نہ کرتی ہو
جہاں نہ شہر جلتے ہوں
جہاں نہ بے سروپا آفتوں سے لوگ مرتے ہوں
جہاں پر دوسروں کے خون سے نہ پیاس بجھتی ہو
جہاں پر صرف بے پایاں محبت کا بسیرہ ہو
جہاں بس نین ملتے ہوں، دلوں کو چین آجائے
جہاں بیٹھے بٹھائے اک حسیں پر پیار آجائے
تو ساری عمر بس اس اک حسیں کے نام ہو جائے
تو سوچو تم!
کسی شاداب نگری کا کوئی برباد سا خطہ
کوئی ویران سا کونہ
سدا آباد ہو جائے
تمہیں سینے لگا کر دل کی بیتابی ٹھہر جائے
یہ کہنا ہے مجھے تم سے
زمانے کے جھمیلوں سے
بچا کر اپنی نظروں کو
چھڑا کر ہاتھ دنیا سے
وہاں اک بار آجاؤ کہ اب بھی منتظر ہوں میں
جہاں تم سے بچھڑنے کا کوئی بھی راستہ نہ ہو
یہی ہر خط میں لکھتا ہوں
ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
ملو مجھ سے
زین شکیل