مرے پہلو میں رہ کر بھی

مرے پہلو میں رہ کر بھی کہیں رُوپوش ہو جانا
مجھے پھر دیکھنا اور دیکھ کر خاموش ہو جانا
قسم ہے چشمِ ذیبا کی مجھے بھولے نہیں بھولا
تجھے کلیوں کا ایسے دیکھ کر مدہوش ہو جانا
تجھے یہ شہر والے پھر مرے بارے میں پوچھیں گے
نظر سے مسکرانا اور پھر خاموش ہو جانا
زمانہ سانس بھی لینے نہیں دیتا ہمیں لیکن
ہمارے واسطے تم چین کی آغوش ہو جانا
نہ مجھ میں وصفِ موسیٰ تھے نہ میں محوِ تکلم تھا
مرا بنتا نہیں تھا اس طرح بے ہوش ہو جانا
مرے زخموں مرے نالوں کا اکلوتا محافظ ہے
مرے شانوں پہ تیرے ہجر کا بَردوش ہو جانا
سو اب اس نازنیں کی عادتوں میں یہ بھی شامل ہے
چمن میں رات کر لینا، وہیں گُل پوش ہو جانا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *