زخموں کو آرام ملا ہے۔۔۔
کچی عمر کے دکھ بھی کتنے پکے اور گہرے ہوتے ہیں۔۔
دنیا نے تو ہنسی ہنسی میں
کتنے زخم اڑا ڈالے ہیں۔۔
شامیں سخت اداسی والی من آنگن میں پھیل گئی ہیں
کوئی مسافر آتے آتے شاید رستہ بھول گیا ہے
دکھ نے دل کو گھیر لیا ہے
خواب عجیب سراب ہوئے ہیں
تعبیروں کو ٹھیس لگی ہے
آنسو سخت عذاب ہوئے ہیں
تنہائی کا وار علیحدہ
اک جانب سنسار علیحدہ
اپنا دل بیمار علیحدہ
جیون صحن میں دکھ کا سورج
کب سے ڈوبنا بھول گیا ہے
دھوپ دکھوں کی اتر رہی ہے
قطرہ قطرہ، ذرہ ذرہ
روح بھی پل پل بکھر رہی ہے
خواہش دل کو مار رہی ہے۔۔۔۔
حسرت چیخ پکار رہی ہے۔۔۔
روح کے اندر ھو کا عالم ڈیرہ ڈالے بیٹھ گیا ہے
ایسے میں اب
مدت بعد کسی نے دل پر ہاتھ رکھا تو
زخموں کو آرام ملا ہے
دل کو اک ارمان ملا ہے۔۔
یوں لگتا ہے
دنیا سے نروان ملا ہے۔۔۔
زین شکیل