مری عمر بھر کا وبال دیکھ کے رو پڑے
جو کسی کے آگے نہ لاجواب ہوئے کبھی
وہ تری نگہ میں سوال دیکھ کے رو پڑے
ترا نام لکھا تو سامنے تجھے پا لیا
یہی آج اپنا کمال دیکھ کے رو پڑے
تری بے رخی مرا ساتھ دینے کو آ گئی
مرے حوصلے مرا حال دیکھ کے رو پڑے
وہ ملا تو عمر مری سمیٹ کے لے گیا
سو خوشی میں، اس کا نوال دیکھ کے رو پڑے
کبھی خود جو تھک کے گرے تو رنج نہیں کیا
مگر آج تجھ کو نڈھال دیکھ کے رو پڑے
ترا ہاتھ مہندی کی زد میں آ کے اجڑ گیا
ہم اسی میں پھولوں کا تھال دیکھ کے رو پڑے
جو سمجھ رہے تھے عروج ہوتا ہے مستقل
وہ تو دور ہی سے زوال دیکھ کے رو پڑے
وہ ہمارا غم جو بیاہ لایا تمہارا غم
تو تمام غم یہ وصال دیکھ کے رو پڑے
زین شکیل