جو میری آنکھ پُر نم ہے تو پھر کیا ہے
میں تنہا خوش ہوں اپنی کائناتوں میں
یہ دنیا مجھ سے برہم ہے تو پھر کیا ہے
ترا لہجہ ہے کافی زخم دینے کو
ترا ہر لفظ مرہم ہے تو پھر کیا ہے
نہیں ملنا تو بس ہم نے نہیں ملنا
اگر ملنے کا موسم ہے تو پھر کیا ہے
ہمیں اپنی سزا ہر طور ملنی ہے
یہاں ہر شخص مجرم ہے تو پھر کیا ہے
جسے سننا ہے ، وہ کیسے بھی، سن لے گا
مری آواز مدّھم ہے تو پھر کیا ہے
زین شکیل