باقی رستے خود ہی کٹتے رہتے ہیں
تم کہتی ہو شہر میں جا کر بس جاؤں
یعنی گونگا، اندھا، بہرا، بن جاؤں
تم ہی شاید اک دن آ کر پانی دو
دیواروں پر پھول بنایا کرتا ہوں
روز اسی امید پہ چھت پر جاتا ہوں
آج کے چاند کو شاید تم نے دیکھا ہو
پیروں کو خود آپ سنبھالے رکھنا تھا
ریت اڑے تو آنکھوں میں پڑ جاتی ہے
کیونکر تم یوں آدھا آدھا آتے ہو؟
میں نے تم سے ساری باتیں کرنی ہیں
زین شکیل