گھر کے دروازے پر پھیلی بیل پہ لٹکی باتیں
بوسیدہ سی ایک محبت، اک بے نام اداسی
میں تو اب بھی تکتا ہوں، دالان تمہارے گھر کا
بھورے رنگ کا دروازہ بھی سیکھ گیا چپ رہنا
ساون تو بس دھول میں لپٹی یادیں دھونے آئے
آنکھوں میں برسات بھگو دیتی ہے منظر سارے
اور وہ اجڑا ، اجڑا سا گھر نین چرائے ہم سے
بات کرے نہ بیری لیکن من میں آگ لگائے!
دیکھو وہ جو ہار گیا تھا ہم سے، جیت گیا ہے!
بالکنی میں تم کو دیکھے عرصہ بیت گیا ہے!
زین شکیل