کیسے کیسے ہم کو خواب

کیسے کیسے ہم کو خواب پرونا آیا کرتا تھا
بچپن تھا جب میٹھی نیندیں سونا آیا کرتا تھا
بے تُکّی سی بات پہ کیسے پہروں ہنستے رہتے تھے
چھوٹی چھوٹی بات پہ کیسے رونا آیا کرتا تھا
گھر کے سارے بچے کتنے خوش ہو جایا کرتے تھے
سب کی خاطر گھر میں ایک کھلونا آیا کرتا تھا
یاد ہے مجھ کو اک محرومی تجھ کو خوب رُلاتی تھی
تجھ کو پلنگ کا تکیہ خوب بھگونا آیا کرتا تھا
اب کھونے سے ڈر جاتا ہوں، تجھ بن کچھ بھی پاس نہیں
پہلے سب کچھ کھو دیتا تھا، کھونا آیا کرتا تھا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *