اب سنگ مرے تُو چل سائیں
اک چاہ میں تیری برسے تھے
دو نین ہوئے اب تھل سائیں
رکھ ہاتھ مسیحائی والا
یہ ہجر بڑا بے کَل سائیں
اک دھوپ غموں کی پھیلی ہے
یہ روپ نہ جائے جَل سائیں
اُس پار سکوں کا ڈیرہ ہے
اِس پار فقط ہلچل سائیں
کیوں آنکھ میں ساون رُت پھیلی
کیوں برسے یہ بادل سائیں
آ ہاتھ پکڑ دکھ زادوں کا
سکھ چین ملے دو پل سائیں
اک عمر اداسی میں ڈوبی
اک درد کا ہے جنگل سائیں
اب کون کرے گا اِک تجھ بن
ہر بار مصیبت حل سائیں
زین شکیل