کوئی بھی تیرے جیسا کیوں

کوئی بھی تیرے جیسا کیوں نہیں ہے
یہاں سب کچھ ہی اچھا کیوں نہیں ہے
بنا جس کے بہلتا ہی نہیں تھا
یہ دل اب اُس سے بہلا کیوں نہیں ہے
کھرچ ڈالا ہے بس اِس پیش و پس میں
کہ اپنا زخم گہرا کیوں نہیں ہے
گڑے ہیں چار سُو جھنڈے ہمارے
یہاں ہر شخص رسوا کیوں نہیں ہے
جب اُس پر بار تھی عادت ہماری
ہمیں پھر اُس نے روکا کیوں نہیں ہے
تمہیں اِس بد رَوش بد خُو جہاں سے
گلہ جو ہے تو زیادہ کیوں نہیں ہے
سنو! اے نابغہ اس بار تم نے
مِرے بارے میں سوچا کیوں نہیں ہے
بلا کا اضطراب و بے کلی ہے
دلِ بیمار رُکتا کیوں نہیں ہے
دیوار و دَر کو چُپ کیوں لگ گئی ہے
یہ کمرہ مجھ پہ ہنستا کیوں نہیں ہے
تمہارے ہوتے ویسا کیوں ہوا تھا
تمہارے بعد ایسا کیوں نہیں ہے
تجھے کیا ہو گیا ہے زین، شب بھر
جو اب جاگے تو روتا کیوں نہیں ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *