موت موت کھیلنے کا شوق تھا
اس نے کہا موت لازم ہے
تمہارے لیے یہی بہتر ہے اسے محسوس کر و
بات سمجھ نا آسکی۔۔
مجھے ہمیشہ لگا میں زندہ ہوں
میں بھی بہت عجیب تھا
شاید میں عجیب ہی ہوں
موت کو محسوس کیسے کرتے ہیں؟
موت کو محسوس کیسے کیا جاتا ہے؟
اسے نفرت تھی
ان سب سوالات سے
میں کبھی اس سے پوچھتا
مگر پھر بھی۔۔۔۔
دل کا بوجھ کسی طور گھٹ جائے
میں نے پوچھ لیا
اسے بات سمجھانا نہ آئی۔
اس نے خاموشی میرے منہ پر
دے ماری۔۔
شاید موت بھی سراب ہے
فریب
بس دور سے خوفناک دکھنے والی
دردناک تاثرات چھوڑتی ہوئی
ڈرپوک چڑیل۔۔۔
وقت موت سے زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔۔۔
بے رحم۔۔۔ اور نہایت بے ترس۔۔۔
وقت کا ہمارے کسی اپنے کو چھین لینا بھی
ہماری اپنی ہی موت ہوتا ہے
وقت بھی تو مجبور ہے
اپنی جگہ،
اپنی طرح سے۔۔۔
اس نے کہا مجھے موت کو محسوس کرنا ہے۔۔۔
موت کو محسوس کرنا اور موت کو دیکھ لینا
میرے لیے ہی لازم و ملزوم کیسے ہو گیا
اسے موت کو محسوس کرنے میں ناکامی ہوئی
اور اس نے موت کو دیکھ لیا
اس نے دیکھ لیا
میں نے محسوس کر لیا
اب میں موت کو محسوس کر چکا ہوں
میں ایک مرا ہوا زندہ آدمی
زین شکیل