ذرا سی بات تھی، بڑا ملال کر لیا گیا
میں خود کھڑا تھا منتظر کسی جواب واسطے
نہ جانے مجھ سے کس لیے سوال کر لیا گیا
یہ دو یا چار دن کا سوگ، سوگ ہے بھلا کوئی؟
تمہارے ہجر کو تو ماہ و سال کر لیا گیا
جو یادِ یار ماتمی لباس پہنے آ گئی
تو عین رو کے آنکھ کو بھی لال کر لیا گیا
وہ جُڑ کے میرے نام سے ڈرا ہوا تھا سو مجھے
کہا، ذرا خیال کر! خیال کر لیا گیا
چلو ہماری خیر ہے ابھی نہیں تو پھر سہی
تمہارے زخم کا تو اندمال کر لیا گیا!
ریاضتوں کا جو ثمر تھا اور کوئی لے گیا
ہمیں تو زین ؔیونہی بس نڈھال کر لیا گیا
زین شکیل