سنّاٹا ہی کیوں آخر چِلّایا ہے
تم بھی کیسی کیسی باتیں کرتے ہو
کیسا کیسا تم نے ڈھونگ رچایا ہے
شاخیں بھی تو پیڑ کے دکھ میں روئی ہیں
پتوں نے بھی وافر شور مچایا ہے
آج ہماری آنکھیں اتنا برسی ہیں
آج برس کر ساون بھی پچھتایا ہے
ہجر کے ماروں کو یوں ڈسنا ٹھیک نہیں
ہم نے کالی راتوں کو سمجھایا ہے
آج ہمارے بھاگ جگے ہیں اے لوگو
آج ہمارا سانول ملنے آیا ہے
میں نے اس کی آنکھوں سے الفاظ چنے
اور اس کے ہونٹوں سے گیت بنایا ہے
زین شکیل