انہی ایّام میں تشریف لائیں
دنوں کی گتھیاں سلجھائیں گے ہم
کسی بھی شام میں تشریف لائیں
تخیّل کی لگامیں تھام لیں اور
مِرے الہام میں تشریف لائیں
ہوا ہر روز خالی لوٹتی ہے
کسی پیغام میں تشریف لائیں
یہ دل گھر ہے خدا کا سو خدارا
ذرا احرام میں تشریف لائیں
ہمارا نام لکھ لیں ساتھ اپنے
ہمارے نام میں تشریف لائیں
یونہی شاید لگے اب من ہمارا
ضروری کام میں تشریف لائیں
ہمیں یوں دیں نہیں واضح دکھائی
ذرا ابہام میں تشریف لائیں
شروعِ دکھ میں نا آئے تو کیا ہے
ابھی انجام میں تشریف لائیں
زین شکیل