کب ٹھہر جانے پہ دُکھ

کب ٹھہر جانے پہ دُکھ ہوتا ہے
اب تو گھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
اتنا مانوس نہیں ہو جاتے
پھر بچھڑ جانے پہ دکھ ہوتا ہے
وہ گلی اب بھی ہے ویسی لیکن
بس گزر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
ایک دن ہو تو گزر بھی جائے
روز مر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
اب یہ بچپن تو نہیں سو ہم کو
ایسے ڈر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
تم جہاں ہم سے ملا کرتے تھے
اب ادھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
اس لئے پھول نہیں ہوتا میں
پھر بکھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
ہم تو مقتل بھی خوشی سے جائیں
اب کدھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *