محبتوں کا، اُداسیوں کا عظیم شاعر
کہ جس کے د ر پر حروف، لفظوں کا جسم پہنے کھڑے ہی رہتے تھے سر جھکائے
تمام الفاظ ہاتھ باندھے ہوئے اجازت طلب کہ فرحت نظر اٹھائے
اداسیوں کے کواڑ کھل جائیں
لب ہلائے تو درد گھلنے لگیں فضاؤں میں
اور فرحت قلم اٹھائے تو زندگانی کے حادثوں کو
محبتوں کی قیامتوں کو، عقیدتوں کو، اِرادتوں کو،
بس ایک نقطے میں قید کر دے۔۔۔
یہ مضطرب کون، بے کلی کا ستایا؟ فرحت!
کسے، اُداسی نے اپنے سینے لگایا؟ فرحت!
یہ کون احساس اپنے لفظوں میں لایا؟ فرحت!
وہ غم کا سلطان، رنج و غم کی کتھا، وہ لفظوں کا بادشہ ہے
کہ شاعری کا وہ دیوتا ہے
جو اپنے لفظوں میں اپنا جیون بہا چکا ہے
جو بن کے احساس خود ہی ان میں سما چکا ہے
اے اہلِ درد اور عظیم انساں!
محبتوں کے پیامبر اور چاہتوں کے امیر فرحت!
اے رنج و غم کے سفیر فرحت!
اے سوگواری کے دیوتا ،
اور بے کلی غدیر فرحت!
محبتوں کے، اداسیوں کے،
ستائے لوگوں کے دل کی دھڑکن
ہمارے فرحت !!!!
تجھے جنم دن بہت مبارک
ترا جنم دن تجھے مبارک
زین شکیل