عیدِ سعیدخوش ہے تمام

عیدِ سعید
خوش ہے تمام دہر کہ نکلا ہلالِ عید
اٹکا ہے کُنجِ لب پہ مرے پھر سوالِ عید
خاموش ہو گیا مرا فریاد رَس تو کیا
اور اِس پہ پھر تجھے بھی رہے پیش و پس تو کیا
میں تو خوشی کا گیت کبھی گا نہیں سکا
اس غمکدے میں چین کبھی آ نہیں سکا
چھوڑو اداس کر کے تمہیں کیا کماؤں گا
دنیا کے غم بھلا کے ترا غم ہی کھاؤں گا
گُل گوں اے عنبریں اے مری جان کی پناہ
تھی حشر خیز کیا وہ تری لعل گوں نگاہ
آباد ہو سدا وہ تری پُر ملال چشم
ہے اب تلک بھی یاد مجھے وہ گلال چشم
(ہائے وہ لاجونتی، وہ اک پیکرِ حیا
رَس گھولتی تھی کان میں اُس کی مَدُھر صدا
بادل ٹھہر ٹھہر کے اُسے دیکھتے بھی تھے
شب، اُس کے بارے، تارے مجھے پوچھتے بھی تھے)
عرصہ دراز بیت گیا اب ترے بغیر
بادل گزرتے جاتے ہیں مجھ سے ملے بغیر
کُل رنج و غم کو میرا اثاثہ بنا دیا
مہجوریوں نے مجھ کو تماشا بنا دیا
اب کیا ہوا وہ عشوہ و ناز و ادا، فسوں؟
اے جانِ جاناں حالتِ ناساز کی سکوں!
تُو ہے جہاں وہاں پہ تو عید آئی ہوئی ہے
پر یَاں تو فقط غم کی نوید آئی ہوئی ہے
خوشیاں جڑی ہیں تجھ سے ہی سارے جہان کی
بس خوش ہو گر تو خوش رہو، نا بھی رہو تو کیا
تجھ کو تو دیکھ کر ہی سکوں پا رہے ہیں لوگ
چاہے خموش ہی رہو، نا بھی ہنسو تو کیا
راحت یا سکھ تو بیتے زمانے کا نام ہے
اب یہ وجود دکھ کے گھرانے کا نام ہے
میں اِس ہلالِ عید پہ کیا اکتفا کروں
عیدِ سعید بس ترے آنے کا نام ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *