تری یاد کی گاگر بھرنے کو، اب اُجڑے رو رو نین
مجھے تیرے خواب خیال ہیں، تری چِنتا کرے یہ مَن
مرے بخت کا تو زرناب ہے، مرے جیون کا تو دھن
مری حاضریوں کی خیر ہو، مجھے ہر دم ہو دیدار
میں ماتھا ٹیکوں ہر گھڑی، مرا دل پی کا دربار
تری یاد سے روح میں روشنی، مرا سکھ میں رہے وجود
کریں ہونٹ ترے ہی تذکرے، مری سانسیں پڑھیں درود
لجپال نجف کے بادشہ، ترا دم دم نال وصال
پڑھوں ناد علیاً جس گھڑی، مرا دور ہو رنج ملال
ہوئی اِک پوجا منظور جو، بن نکلی آنکھ سے نیر
ترے عشق میں نام و نسب کیا، کوئی کیا سَسّی، کیا ہیر
ترا فیض ہے کُل جہان پر، تری چوکھٹ بہت امیر
اِک پل میں دنیا بانٹ دیں، ترے در پہ پڑے فقیر
مِلا عرب شریف کو بخت یہ، ترا اس میں پاک قیام
تری ذات صفات تو اِک طرف، ترا سب سے اونچا نام
جہاں قدم دھرے سرکار نے، اُن سب رستوں کی خیر
جو لوٹے اُن کے شہر سے، پیوں دھو دھو اس کے پَیر
لجپال حُسین ابنِ علی، ہوئے دریا، بحر اُداس
کُل جگ کے آب کو لگ گئی، ترے پاک لبوں کی پیاس
تم زبر نہ زیر ہو زین جی، تمہیں کچھ بھی نہیں معلوم
وہ حاکم تم محکوم ہو، وہ ازلوں سے مخدوم
زین شکیل