سمندرِ غم کے پار ہو کر

سمندرِ غم کے پار ہو کر، اُداس ہو کر
ملا بھی کیا ہے قرار کھو کر، اُداس ہو کر
ابھی میں کیسے غمِ زمانہ کے پاس جاؤں
ابھی تو آنکھیں ہیں، سُرخ رو کر، اُداس ہو کر
کچھ اسطرح سے، کبھی کبھی وہ، مجھے ملا ہے
حسین آنکھوں میں غم پِرو کر، اُداس ہو کر
اُسے کہو نا ہنسی تو لب پر سجائے رکھے
چلا ہے سینے میں درد بو کر، اُداس ہو کر
جسے ہنسی کا ہنر سکھایا تھا میں نے یارو
بچھڑ گیا ہے وہ شخص رو کر، اُداس ہو کر
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *