غم کا سکوت اور مجھے غمزدہ کرے
آنکھوں سے اپنی دور رکھو اب ہمارا خواب
ایسا نہ ہو کہ بعد میں پھر مسئلہ کرے
اُن اُن کو راہ دوں، انھیں جھک جھک کروں سلام
جن جن کو راہ چلتے ہوئے تُو ملا کرے
بس یار کے خلاف نہیں کچھ سنوں گا میں
چاہے زمانہ کچھ بھی مجھے کہہ لیا کرے
عادت پڑی ہے، اور یہ عادت عذاب ہے
دل جس کو چاہتا ہے اسی کو خفا کرے
دیکھا ہے صبر کر کے مگر تُو نہ مل سکا
اس دل کو کیا پڑی ہے کہ اب حوصلہ کرے
جاتا ہے اور لوٹ کے آتا ہے بار بار
اب اس کو چاہیے کہ کوئی فیصلہ کرے
تنگ آ گئے ہیں اس کی وفاؤں سے زین ہم
وہ شخص کاش ایک نہ وعدہ وفا کرے
زین شکیل